اختلاف و رجوع جلد اول
اختلاف و رجوع, #1
by Muhammad Yahya Cheema
Publisher: MYC
اس دورِ پر فتن میں جہاں ہر کوئی عالم فاضل ہونے کا دعویدار ہے اور یو ٹیوب سے بے دریغ فیض پاتا ہے، تعلیم اور تعلّم کی اہمیت سے انکار عام ہوا چلا ہے۔ فی زمانہ مسائل تو بے شمار درپیش ہیں۔ لیکن ہماری نوجوان نسل کا سب سے بڑا مسئلہ یہی انفارمیشن ہے۔ انفارمیشن ہی ترقی کی شاہراہ بھی ہے، اور نتزلی کا سببِ اول بھی۔ جب معتبر اور غیر معتبر معلومات مختلط ہو جائیں تو الحاد اور انکار کو جدیدیت کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اچھی اقدار اور اصولی روایات کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔ دین میں بے اساسی اختراعات کو جدت پسندی کا عنوان بخشا جاتا ہے۔ یہ نئی باتیں نہیں، لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں برقی زینتوں سے مزین اور نئے بیانیوں کے ہمراہ نظر آتی ہیں، دل لبھاتی ہیں، نظروں کو چکا چوند کرتی جاتی ہیں۔ نت نئے ہتھکنڈوں سے ہمیں سراب بیچے جارہے ہیں۔ اور حیف، کہ ہم سمجھ رہے ہیں یہ زرِ معتبر ہے۔ بات میٹھی ہو یا کڑوی، اتفاقی ہو یا اختلافی، کسی کی دل آزاری کا باعث بنے یا کسی کی راحتِ قلب کا، اگر سچی ہے، برحق ہے، تو کرنی تو پڑے گی۔ جذباتی حسساسیت کے اس دور میں سچ بات کرنا آسان نہیں رہا۔ سچ اور جھوٹ سے بڑھ کر زور اس طرز عمل پر ہو گیا ہے کہ بات سماجی اور اجتماعی طور پر قابلِ قبول ہو ۔ ہم یہ بھولتے جا رہے ہیں کہ علمی اختلاف، علمی جھگڑا، ہر کسی کا حق ہے۔ مہذب معاشروں میں بات چیت کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوسکتا۔ ہر مسئلہ بات چیت ہی سے حل ہوتا ہے۔ کسی کے بھی نظریے کو سننے، سمجھنے اور پرکھنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیئے۔ خصوصاً مذہبی معاملات میں علمی بحث اور مباحثے کو جذباتی طور پر نہیں لینا چاہیئے۔ علمی بحث انسان کی ذہنی ترقی کا اجالا ہے۔ اسے نفرتوں کے اندھیروں میں نہیں دکھیلنا چاہیئے۔بس اتنا دھیان رکھنا چاہیئے کہ جو کہا جارہا ہے، مستند ہے یا نہیں۔ معیاری ہے یا نہیں۔ اس کا فیصلہ ضرور ہونا چاہیئے۔ براہینِ قاطع ضرور کھوجنی چاہیں۔ دلائل لازمی پرکھنے چاہیں۔ تحقیق ضرور کرنی چاہیے۔ یہ قانون ربﷻ کا قانون ہے ، کسی انسان کا بنایا ہوا قانون نہیں۔
زیرِ نظر کاوش اسی تحقیق کی ایک اور سعیِ ناتمام ہے۔ میں نہ تو علمیت کا دعویدار ہوں نہ عالمیت کا۔ مجھ پر تو فقط اتنا واجب ، کہ جو کچھ اپنے اساتذہ سے سیکھا اسے آگے پہنچا دوں۔ یہ مضامین اُن مسائل پر میری فہم کے عکاس ہیں جن سے نبرد آزما ہوتے میری عمر گذری ہے۔ ان مضامین میں تحقیقی لطائف سوشل میڈیا سے مستعار نہیں، بلکہ عالمی تعلیمی معیار کے مرہونِ منت ہیں۔ مقصد صرف اتنا ہے کہ کوجھنے والوں کو اسلام کے اُن مسائل پر معیا ری مواد میسر ہو جنہیں سوشل میڈیا پر بے دریغ بے سروپا ہاو ہُو نے گنجلگ اور مبہم بنا ڈالا ہے۔ میں نے اپنی نوجوان نسل کو ان مسائل میں الجھتے دیکھا ہے۔ اسلام کے اختلافی موضوعات میں الجھ کر میں نے کئی زکی اذہان کو بربادی سے دوچار پایا ہے۔ رب تعالیٰ ﷻ سے دعا ہے کہ وہ ہر مسلمان کے ایمان کو محفوظ رکھے اور شیاطین کے شرور و وساوس سے حفاظت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین ﷻ۔
میرے مضامین میں اگر کسی کو کوئی اچھی بات ملے تو جان لے کہ یہ بس میرے ربﷻ کی رحمت کے تصدق ہے اور میرے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نعلین پاک اور انکی آل کے پیروں کی خاک کا فیض ہے، میرے والدین کی تربیت ہے، میرے اساتذہ کی محنت ہے۔ اور جو بھی بری چیز ملے وہ میرے نفس کا فتور ہے، میری کم علمی ،کم مائیگی اور حہالت ہے۔
مجھ ناچیز پہ اپنے والدین کا تشکر واجب، کہ انہوں نے بڑی جاں فشانی اور محبت سے میری تعلیم اور تربیت فرمائی ۔رب ارحمہما کما ربیانی صغیرا۔ اپنے اساتذہ کا تشکر بھی لازم، کہ ان کی رہنمائی اور ان کے فیض کے بغیر میرا کوئی وصف بھی قابلِ ذکر مت ٹھہرے۔ اُنہیں کی نسبت ہے جس کی وجہ سے میرا کلام اور میرا قلم دونوں ہی معتبر بنے۔ وگرنہ من آنم کہ من دانم۔ تمام احباب کا بھی شکریہ جنہوں نے ان مضامین کو پڑھا اور اپنی قیمتی آراء سے نوازا۔ اللہ ﷻ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین۔